پونچهہ میں سدهن بغاوت (1947-1832) کامختصر جائزہ...

Sudhnoti.com | 2:03 PM | 0 comments

District Poonch, Azad Kashmir
کشمیرکی تاریخ میں پونچهہ کوہردور میں اہم حیثیت حاصل رہی ہے جواب تک قائم ہے یہاں کے باسیوں نے حریت ،جانباری اور جوانمردی کی ایس انمٹ مثالیں چھوڑی ہیں جنکی نظیر ملنا مشکل ہے...
پونچھ کی علیحدہ حیثیت طویل عرصے تک قائم رہی.... مہا راجہ ہری سنگھ نے 1938 میں ریاست پونچھ کو ختم کرکے اسے جاگیربنادیا... پونچھ ہمیشہ شورشوں کی زدمیں رہا ہے جس کی وجہ سے کشمیر کے حکمرانوں کو ہر دور میں شدید مشکلات رہیں.. مہا راجہ رنجیت سنگھ نے 1814 اور 1818 میں پونچھ پر دو مرتبہ چڑ ھائی کی لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکهناپڑا....انگریز مورخ میجر کارمائیکل سمتھ اپنی کتاب میں لکھتا ہے... کہ 1832 میں پونچھ کے سدووزئی قبیلے سے تعلق رکهنے والے حاکم سردار شمس خان کے ساتھ مہا راجہ گلاب سنگھ کی جنگ میں سدھنوتی کے 35ہزار لوگ شہید ہوئے... کتاب میں سدھنوتی کی بغاوت(سدهن ریوولٹ) کے باب میں اس نے لکھا ہے کہ اس لڑائی میں سینکڑوں عورتوں ،بچوں اور مردوں کو مہاراجہ نے قیدی بنا کر جموں بھیجا.... جن میں سے اکثریت کو ماردیاگیا.........
سردارشمس خان لاہور دربار میں وزیر امور خاص رہا... آپ راجی کے اس دور میں ڈوگرہ حکمرانوں کو ہمیشہ پونچھ سے خطرہ رہا اور وہ پونچھ کے پہاڑی علاقوں کو فتح کرنے یا زیرنگین لانے کی ناکام کوششیں کرتے رہے.... کیونکہ انہیں پونچھ میں بسنے والے جری اور بہادر قبائل سے واقفیت تھی.... ڈوگرہ حکمران نے پونچھ پر حملہ کی ٹھانی تو سردار شمس خان وزار ت سے مستعفی ہو کر اپنے گاؤں سردی بہال گراں (منگ) واپس آگئے... اور برادری اورعلاقے کے بااثر اور سرکردہ سرداروں کو گلاب سنگھ کے حملے سے آگاہ کرنے کے ساتهہ ان کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا.... یہ کشمکش 1818 سے 1838 تک جاری رہی مہا راجہ گلاب سنگھ نے کہوٹہ راولپنڈی کی طرف سے حملہ کیا تو اہل پونچھ نے سردار شمس خان کی قیادت میں مردانہ وارمقابلہ کیا... اور ہرجگہ بےجگری سےلڑتے رہے..شمس خان اور ان کے خصوصی معاونین سردار ملی خان ،سبز علی خان، سردار مہدی خان اور ان کے ساتھی گرفتار کرلیےگئے..ان کی گرفتاری سدھہ ون کےراٹھور راجہ شیرباز خان کی منجری پرہوئی... کیونکہ یہ سب سردار اس وقت اسکی پناہ میں تھے سردارشمس خان کاسرقلم کرکے شہید کردیاگیا...سردار شمس خان اور ان کے بھتیجے سردار راجولی خان کے سرگلاب سنگھ اپنے ساتھ پونچھ لے گیا اور یہ دونوں سروہاں ادھ ٹیک پہاڑی پر تین سال پنجرے میں رکهے تاکہ پونچھ کے سدھن اس سے عبرت حاصل کریں اس دور میں بھی میر جعفراور میر صادق موجود تھے..جنہوں نے ان عظیم حریت پسند سرداروں کو دشمن کےحوالےکرنے میں مدد کرکے جاگیریں حاصل کیں....کرپارام نے اپنی کتاب میں لکھا ہےکہ ایک دو روز میں سردار سبزعلی خان، سردار ملی خان اور اس کے ساتھیوں کی جس درخت کے ساتهہ الٹا لٹکاکرجگہ کهالیں کهنچی گئیں... پھر انکاگلہ کاٹ کرانکی کھالوں میں بھوسہ بھرکراوردرخت کے ساتھ لٹکایاگیا...تاکہ پونچھ کےلوگ عبرت حاصل کریں...اور ان کی اولاد کی جان بخشی کردی گئی...منگ کے مقام پروہ درخت آج بهی موجود ہے...موءرخین نے زندہ کھالیں کھنچوائے جانے والے سرداروں کی تعداد متضاد لکھی ہے کتابوں میں یہ تعداد 4سے14اور 80لکھی ہے واﷲ اعلم بالصواب....!
ڈوگر ہ مہاراجاؤں کا خیال تھا کہ ان روح فرسا اور سنگدلانہ واقعات کے بعد پونچھ کا کوئی سردار ان سےٹکرنہیں لےگا اور نہ سر اٹھانے کی جراءت کریگا... لیکن نصف صدی کے بعد کھڑک راولاکوٹ سے تعلق رکهنے والے غیور رہنماءسردار بہادر علی خان نے 1898 میں جب تحریک حقوق ملکیت کا آغازکیا تب بااثرسرداروں اور عوام نے انکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بھرپور ساتھ دیا.... ڈوگرہ حکمران نے سازش کے ذریعے انہیں زہر دےکر شہید کردیا... لیکن اہلیان پونچھ کو لاہور ہائی کوٹ کےفیصلے میں زمینوں کے مالکانہ حقوق دے دئیےگئے...کشمیر کامہاراجہ ہری سنگھ 23مارچ 1947 کو بابائے پونچھ کرنل خانصاحب کی دعوت پر راولاکوٹ کے دورے پر آیا... تو 30ہزارسے زائدسابق فوجیوں نے اسے سلامی دی... راولاکوٹ میں تجربہ کار تربیت یافتہ فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر مہاراجہ ہری سنگھ حواس باختہ ہوگیا اور رات کے اندھیرے میں وہاں سے نکل کر واپس چلاگیا... اس نے پونچھ میں ڈوگرہ فوج کی تعداد دوگناکرکے انہیں جدید اسلحہ فراہم کیا اور تراڑ کھل، پلندری، منگ، تھوراڑ، آزاد پتن، باغ اور دھیرکوٹ میں پختہ فوجی مورچے تعمیر کرائے اور فوجی چھاؤنیوں میں اضافہ کیا...ڈوگرہ فوج نے عوام کا جینا محال کردیا... ہرطرف لوٹ مار شروع کردی.. عوام کو ہراساں کرناشروع کردیا...اس صورتحال نے برطانوی فوج سےکیپٹن ریٹائرڈحسین خان کو ڈوگروں کے خلاف مسلح جہاد کرنے پر مجبور کیا.... انہوں نے بابائے پونچھ کرنل خان آف منگ کو قائل کیا کہ ڈوگروں کے خلاف بندوق اٹھائے بغیر کوئی چارہ نہیں ... مشاورت کےبعد جہاد کونسل قائم ہوئی... جسکے چیئرمین بابائے پونچھ مقرر ہوئے تاکہ عوام کو باقاعدہ تربیت دے کر جنگ کے لیے منظم کیاجائے اس وقت پونچھ میں سابق اور موجود فوجیوں کی تعداد 40ہزار کے لگ بھگ تهی...!
1947 ء میں ڈوگرہ مہاراجہ نے باغ میں مزید فوج بھیجنے کا حکم دیا تو باغ کے گردیزی سادات کے جرگے نے اپنے سپہ سالار کیپٹن حسین خان کوخط لکھا کہ ’’ڈوگرہ فوج کو اپنے علاقے سے نہ گزرنے دیں.... انکو باغ پہنچنے سے پہلے روکیں....کیونکہ اگر یہ فوج باغ پہنچ گئی تو ایک مرتبہ پھر 1832 کی تاریخ دہرائی جائے گی....قتل عام ہوگا خواتین کی بے حرمتی کی جائےگی اورایک مرتبہ پھر ہمارا تشخص پامال ہوگا...کیپٹن حسین خان نے یہ خطہ پڑھتے ہی اپنے ساتهیوں کو ہدایت کی کہ ڈوگرہ فوج کو روکیں....29 اگست 1947 کو ڈوگرہ فوج کے دستے ہجیرہ سے آگے پہنچے تو دوتھان، راولاکوٹ کے مقام پر پہاڑ کے دامن میں گھات لگا کربیٹھےنیشنل گارڈز نے ان پرحملہ کردیا...جن کی قیادت مسلم نیشنل گارڈ کے کمانڈر کیپٹن محمد اشرف خان کررہے تھے...اور دست بدست لڑائی ہوئی...زبردست معرکہ میں ڈوگرہ فوج کے کچهہ سپاہی مارے گئے اور انکی رسد کو نقصان پہنچا جبکہ پانچ گارڈزشہید ہوگئے... اس طرح ڈوگرہ فوج باغ پہنچنے میں ناکام ہو گئی...دوتھان کا معرکہ جہاد کشمیر کا نقطہ آغاز بنا جہاں پہلی گولی چلی اور وہیں سے عملی جہاد شروع ہوا....اور وہ شہید آزادکشمیر کی آزادی کے پہلے شہید ہیں....جہاں حکومت آزاد کشمیر نے ایک یاد گارتعمیرکی ہے... 15اگست کو راولاکوٹ اور 23 اگست کو نیلابٹ کے مقامات پر صرف جلسے ہوئے اور وہاں سے عوامی تحریک کا آغاز ہوا...اس کے بعد کشمیر میں یکے بعد دیگرے جنگ کا آغاز ہوا...اور منگ، تھوراڑ، راولاکوٹ، پلندری، تراڑ کھل، ہجیرہ، باغ، دھیرکوٹ، میرپور، کوٹلی، بھمبر اور مظفر آباد میں معرکے ہوئے جن میں گارڈز، عوام اور خواتین نے ٹوپی دار بندوقوں، کلہاڑیوں ڈنڈوں اور درانتیوں اور سب بڑھ کرجذبہ ایمانی کے ساتھ ان علاقوں کو ڈوگرہ فوج سے آزاد کروایا......
قبل ازیں مری میں تحریک کے قائد سردار محمد ابراہیم خان نے تمام علاقوں کے فوجی کمانڈروں اور ریٹائرڈ فوجی افیسران کا خفیہ اجلاس بلایا.... جس میں مشاورت کے بعد مرکزی وار کونسل تشکیل دی گئی.... جس میں کیپٹن حسین خان کو راولاکوٹ کا کمانڈر بنایا گیا...انکے ساتھ کیپٹن رحمت اﷲ اور کیپٹن چنو خان،کیپٹن حسین خان گوراہ پلندری، باغ کے کمانڈر سردار عبد القیوم خان انکے ساتهہ پیر علی اصغر شاہ، کوٹلی سیکٹر کے کمانڈر کرنل شیر احمد خان، انکے ساتھ سخی دلیر خان، میرپور سیکٹر کے کمانڈر کرنل خان محمد خان آف منگ،انکے ساتھ کیپٹن دلاور خان اورکیپٹن راجہ افضل خان مقرر کیے گے... جبکہ ہجیرہ بلوچ میں کیپٹن ہدایت خان، تراڑ کھل میں میجرمحمد حسین کہالہ کمانڈر مقرر کیےگئے....اس جہاد میں تمام قبائل برادریوں اور علاقوں نے ڈوگروں سے آزادی کیلئے تن من دھن قربان کردیا....ہرانچ پرسر زمین پر خون بہاتب یہ خطہ آزاد کشمیر ڈوگروں سے باجگزار ہوا......!
بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان المعروف خان صاب 1882 ء میں چھے چھن ضلع سدھنوتی میں پیدا ہوئے انکے والد محترم حاجی مہندا خان نے تحریک حقوق ملکیت میں اہم کردار ادا کیا۔آپ تعلیم کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور صوبیدار کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اسکے بعد انکی ساری زندگی سیاسی وسماجی خدمت اور فلاحی واصلاحی تحریکوں میں گزری۔وہ 1932 میں کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے.... اور1946 ء تک کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے....انهوں نے بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کو اپنی نشست سے رکن اسمبلی منتخب کرایا اور ریاست کے عوام میں انکو متعارف کروانے کا سہرہ بھی انہی کے سرجاتا ہے.....دوسری جنگ عظیم میں انکی مثالی کارکردگی کی بنیاد پر برطانوی حکومت نے انہیں’’خان صاحب ‘‘کے خطاب سے نوازا...1932 ء میں معروف اور قدیم سماجی تنظیم سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیادرکھی.... جسکا مقصد ریاست میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اور اصلاح معاشرہ تھا۔جامعہ تعلیم القرآن پلندری قائم کیا....انسانیت کی خدمت ان کا مشن رہا...معاشرتی برائیوں ہندوارنہ رسوم ورواج سود نسوار تمباکو نوشی کے خلاف نبردآزمارہے۔بلا شبہ وہ رباست جموں وکشمیر کے عظیم مصلح تهے..جہاد کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے تو آزاد کشمیر فوج کی تنظیم نو کی...1947 ء کے جہاد کشمیر میں انکی اہنی ناقاببل فراموش خدمات کے عوض انہیں کرنل کا عہدہ دیا گیا۔وہ ایک نیک ،جہاندیدہ عمل کو کردار کے پیکر اور عبادت گزار شخصیت تھے..11 نومبر 1961 ء کو انتقال فرماگئے...انکے فرزند کرنل نقی خان کشمیر کے معروف سیاستدان تھے ...انکی وفات کے بعد خان صاحب کے پوتے ڈاکٹر نجیب نقی کئی مرتبہ آزاد حکومت میں ممبر اسمبلی وزیر اور ممبر کشمیر کونسل رہ چکے ہیں موجودہ اسمبلی کے بھی رکن ہیں....
جہاد آزادی کشمیر کے بانی سپہ سالار فوجی منصوبہ ساز اور عظیم حریت پسند جرنیل حسین خان شہید مئی 1897 میں کالاکوٹ موجودہ نام حسین کوٹ،راولاکوٹ میں پیدا ہوئے۔تعلیم کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہوئےاور کیپٹن ریٹائرڈہوئے....انکی فوجی مہارت اور منصوبہ بندی مشہور تھی...کئی عالمی اعزازات سے نواز ے گے...ڈوگرہ مہاراجہ کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف برطانوی وائسرائے لارڈ دیول سے بھی ملاقات کی لیکن جب ظلم کم نہ ہوئے تو ہری سنگھ کےخلاف بندوق اٹھانے کا عزم مصمم کرلیا۔تمام علاقوں کے دورے کیئے ،بااثر شخصیات کو جہاد شروع کرنے کیلئے آمادہ کیا۔سب سے پہلے انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی سے ہتھیار خرید کر مجاہدین میں تقسیم کیئے اور جنگ کی ساری منصوبہ بندی تیار کی۔اس معاملے میں انہوں نے کرنل خان صاحب ،کرنل خان آف منگ اور غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان سے ہر موقع پر مشاورت کی۔جہاد کے آغاز سے ہی وہ ہرمحاذ پر دوڑتے رہے اور مجاہدین کی رہنمائی کی....آزاد پتن پر ڈوگرہ فوج کا پہلا حملہ انہی نے ناکام بنایا بعد میں راجہ سخی دلیر بھی شامل ہوگے....وہ2 اکتوبر سے 11 نومبر 1947 ء تک رات دن جاگ کر ڈوگروں سے لڑتے رہے اس دوران منگ ،تھوراڑ،راولاکوٹ،دشمن سے آزاد کرایا....اور پورے کشمیر کی آزادی کی تڑپ انکے دل وجاں میں بسی ہوئی تھی ڈوگرہ فوج سے مردانہ وار لڑتے ہوئے 11 نومبر1947 کو تولی پیر محاذ کا بل گلہ کے مقام پر شہید ہوئے...عسکری تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کیپٹن حسین خان زندہ رہتے تو آج کشمیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا...انکے ذکر کے بغیر تاریخ کشمیر مکمل نہیں ہوتی....جسٹس یوسف حراف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’کیپٹن حسین خان جہاد کے دوران راولپنڈی سے 3 مارٹر گنیں خرید کر لائے تھے اور فوجی انکو کندھے پر لاد کر پنجاڑ سے راولاکوٹ تک لائے....جنکی گھن گرج سے ڈوگرہ فوج بھاگ کھڑی ہوئی انہوں نے جہاد آزادی سے قبل پنجاڑ تحصیل کہوٹہ راولپنڈی میں فوجی اور سیاسی اجتماع میں کیاتھا جس میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا....کہ میں اس مجمع میں اعلان کر تا ہوں کہ میں یہ ہری سبز وردی پہنے ہو ئے آپ کے سامنے کھڑا ہوں اس وقت تک اتاروں گا جب دشمن کو کشمیر کی آخری حد کھوئی رٹہ سے باہر نہ کردوں...انکی لاش تولی پیرسےتهوڑاپہلےایک مقام پرپائی گئی بزرگوں کےمطابق انکےاپنےکسی پڑوسی نےانکوگولی ماردی...اس مقام کوشہیدگلہ کہاجاتاہے......!!
بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان اور عظیم کیپٹن حسین خان شہید کی برسی ہر سال 11نومبر کو شایان شان طریقے سے منائی جاتی ہے اس روز سرکار تعطیل ہو تی ہے اورکئی بڑی تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے مرکزی تقاریب دونوں نابغہ روز گار شخصیات کے مزارات پر انقعاد پذیر ہو تی ہیں جس میں مقررین اور نمائندگان انکی قومی عسکری خدمات اورقربانیوں پر انہیں خراج عقیدت پیش کر تے ہیں....!
بوائزپوسٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ کیپٹن حسین خان شہیدکے نام سے منسوب ہے..... حکومت آزادکشمیر کو چاہیئے کہ وہ انکی جائے شہادت پہ ایک یادگار تعمیر کروائے اورراولاکوٹ یا پلندری میں میوزیم قائم کرکے 1947 کے جہاد کے اہم شوائددستاویزات اور انکے کمانڈروں زیراستعمال اشیاء کو محفوظ کیاجائے نیز یونیورسٹی لیول پر ایسی قومی شخصیات کو نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے....
قارئین کی توجہ ایک دو اہم نقاط کی جانب مبزول کرواتا چلوں کہ مقامی باشندے چونکہ ڈوگروں کے ستائے ہوئے تهے اسلیے عام آدمی کوقبائلیوں کےداخلے کے پاکستانی عزائم کاعلم نہ تها انہوں نے اپنی طرف سے جہادکی آواز پہ لبیک کہا اور بےجگری سےلڑے...البتہ اپنی جہالت کی وجہ سے انہوں نےسینکڑوں ہندو اور سکهہ خاندانون کو زندہ جلادیا جو کہ انسانیت سوز عمل تها....!!!
بشکریہ: ملا دو پیازہ

Category: ,

About Sadozai Group:
A Blog About Sadozai Tribe of Azad Kashmir, Pakistan. You can write and share with us, we publish here for free if you have useful information regarding Sadozai Tribe or Azad Kashmir!

0 comments